پولیس کا PUBGویڈیو گیم بند کروانے پر غور! PUBGکھیلنے سے منع کرنے پر نوجوانوں کی خودکشیاں۔
پولیس کا PUBGویڈیو گیم بند کروانے پر غور! PUBGکھیلنے
سے منع کرنے پر نوجوانوں کی خودکشیاں۔
اطلاعات کے مطابق لاہور
کے ملتان روڈ کے رہائشی 16 سالہ نوجوان نے خودکشی کا فیصلہ اس وقت کیا جب اس کے
والدین نے اسے آن لائن گیم کھیلنے سے منع کیا۔ اس نے اپنے آپ کو پنکھے سے لٹکا کر
خودکشی کر لی۔پولیس کے مطابق خودکشی
کرنے کے بعد بھی اس کے موبائل پر پبجی گیم چل رہی تھی۔
اس واقع سے دو روز قبل شہر
کے ایک اور 20 سالہ نوجوان نے اسی گیم کی وجہ سے اپنے آپ کو پنکھے سے لٹکا کر خودکشی
کی تھی۔
ڈی آئی جی آپریشنز
اشفاق خان نے بتایا کہ تشدد کو فروغ دینے والی گیمز کے باعث نوجوانوں میں خودکشی
کرنے کا رجحان بڑھنا ایک افسوک ناک اور تشویش ناک عمل ہے۔
انھوں نے کہا کہ ایسی گیمز ایک نشے کی طرح ہیں جس کی لت لگ جاتی ہے اس
لیے والدین اور بچوں کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے اوپر اختیار رکھتے ہوئے ایسی گیمز نہ
کھیلیں۔
PUBGمیں
آخر ہے کیا۔
PUBGکھیلنے والے ایک صارف نے بتایا کہ یہ
گیم ایک مشن کے تحت کھیلا جاتا ہے جس میں دشمن سے مقابلہ ہوتا ہے اور اس کے لیے
بندقوں کا استعمال کیا جاتا ہے۔
صارف نے بتایاکہ یہ گیم
ہم اکیلے بھی کھیل سکتے ہیں اور ایک سے زائد لوگ بھی اس میں شامل ہو سکتے ہیں۔ اس
لیے اپنے دفاع کے لیے ہمیں دشمن کو مار کر گیم جیتنی ہوتی ہے۔
اس کا مزيد کہنا تھا کہ
وہ کمپیوٹر پر یہ گیم کھیلتے ہیں ۔کیونکہ یہ گیم آن لائن چل رہی ہوتی ہے اس لیے اس
دوران آپ اس گیم کو چھوڑ کر کہیں نہیں جا سکتے ہیں۔ یہاں تک کہ اگر آپ کھانا کھانے
جا رہے یا کسی بھی کام کے لیے اٹھیں گے تو دوسری پارٹی آپ کو مار دے گی۔
اس گیم کی دو اقسام
ہیں۔ ایک وہ جو کمپیوٹر پر کھیلی جاتی ہے اور دوسری وہ جو موبائل پر لوگ کھیلتے
ہیں۔
موبائل پر کھیلی جانے
والیPUBG گیم میں آپ کے پاس بہت ہی آپشنز ہوتی ہیں
جیسے کہ آپ کپڑے اور اپنا اسلحہ بھی تبدیل کر سکتے ہیں۔
دنیا بھر میں یہ گیم
کھیلی جاتی ہے جس کی وجہ سے ہر جگہ سے اس کے منفی اثرات کی شکایات آنے کے بعد اس گیم
میں ایک اورنیا فیچر متعارف کروایا گیا ہے
جس کی مدد سے بتایا جاتا ہے کہ آپ کا سکرین ٹائم بہت زیادہ ہو گیا ہے اس لیے اب
گیم کو بند کر دیں۔لیکن اب یہ کھیلنے والے
پر منحصر ہے کہ وہ اسے وقت پر بند کرتا ہے یا پھر کھیلتا رہتا ہے۔
PUBG جیسی گیمز خودکشی کا
باعث بن سکتی ہیں۔
اس بار میں ماہر نفسيات
نے بتایا کہ میرے خیال میں اگر یہ کہا جائے کہ کسی بچے یا نوجوان نے صرف گیم کی
وجہ سے خودکشی کی تو یہ غلط ہوگا کیونکہ ایساممکن نہیں ہے کہ خود کشی کرنے کی صرف
ایک وجہ ہو۔
انھوں نے بتایا کہ ویسے
بھی اگر دیکھا جائے تو کرونا کی وجہ سے ہر شخص ہی اس وقت الجھن اور مایوسی کا شکار
ہے اور بچوں میں یہ رویا زیادہ اس لیے بھی بڑھ رہا ہے کیونکہ وہ اپنی پریشانی کا
اظہار نہیں کرتے ہیں۔
عمموماً بچے اور نوجوان
اپنے دوستوں کے ساتھ یا سکول میں یا گھر سے باہر نکل کر وقت گزار لیتے تھے لیکن اب
ان کے پاس کرنے کو کچھ نہیں ہے۔ سب گھروں میں محسور ہیں ایسے میں ان کے پاس ڈیجیٹل
گیمز کھیلنے یا پھر آن لائن سرچ کرنے کے علاوہ کچھ اور موجود نہیں ہے۔ جس کی وجہ
سے وہ زیادہ تر وقت انہیں کھلینے میں گزارتے ہیں۔
انھوں نے مزيد بتایا کہ
جو بچے خود کشی جیسا بڑا قدم اٹھاتے ہیں ان کی شخصیت میں پہلے سے ہی ایسے خیالات
موجود ہوتے ہیں اور خودکشی کی وجہ صرف ایک عنصر نہیں ہے۔
No comments