عالمی ماہرین نے پاکستان کے بجلی پیدا کرنے والوں منصوبوں پر تحفظات کا اظہار کردیا۔
![]() |
عالمی ماہرین نے پاکستان کے بجلی پیدا کرنے والوں منصوبوں پر تحفظات کا اظہار کردیا۔ |
عالمی ماہرین نے پاکستان کے بجلی پیدا کرنے والوں منصوبوں
پر تحفظات کا اظہار کردیا۔
منصوبے عالمی سطح پر بجلی کی پیداوار سے متعلق اصولوں
پر پورا نہیں اترتے۔اسلام آباد نے جن مفروضات پر انحصار کیا گیا ہے وہ درست نہیں۔ ماہرین
اسلام آباد: عالمی ماہرین نے پاکستان میں آئندہ 27 سال کے دوران بجلی
کی پیداوار کے منصوبوں پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت کے یہ منصوبے
عالمی سطح پر بجلی کی پیداوار سے متعلق اصولوں پر پورا نہیں اترتےرواں برس وزارتِ توانائی
کے ادارے نیشنل ٹرانسمیشن اینڈ ڈسپیچ کمپنی
نے 2047 تک ملک میں بجلی کی متوقع طلب کے پیش نظر ایک طویل المدتی منصوبہ پیش کیا تھا۔
اس منصوبے کے تحت قابلِ تجدید توانائی اور مقامی کوئلے سے پیدا ہونے
والی بجلی کے استعمال میں خاطر خواہ اضافہ اور فوسل ایندھن کی درآمدات اور کاربن اخراج
میں کمی لانا شامل ہے تاہم عالمی ماہرین کی رائے کے مطابق ”انٹیگریٹڈ جنریشن کیپیسٹی“
کو بڑھانے کا منصوبہ (آئی جی سی ای پی) حکومت کی جانب سے بجلی کی پیداوار سے متعلق
وضع کردہ اصولوں پر پورا نہیں اترتا۔
اس حوالے سے امریکی ادارے ”انسٹی ٹیوٹ فار انرجی اکنامکس اینڈ فنانشل
اینالائسز“ سے منسلک معاشی تجزیہ کار سائمن نکولس نے ایک رپورٹ جاری کی ہے اپنی رپورٹ
میں سائمن کا کہنا ہے کہ منصوبے کے تفصیلی تجزیے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ طویل المدتی
منصوبے میں بجلی کی متوقع طلب اور پیداواری صلاحیت سے متعلق اندازہ لگانے کے لیے جن
مفروضات پر انحصار کیا گیا ہے وہ درست نہیں لہذا ان مفروضات سے اخذ کیے جانے والے نتائج
بھی درست نہیں۔
امریکی نشریاتی ادارے کے مطابق ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے
پیش کردہ مجوزہ پلان میں آئندہ 27 برسوں میں مقامی طور پر پیدا ہونے والے کوئلے اور
پانی کے ذریعے بجلی پیدا کرنے کے منصوبوں پر زیادہ انحصار کیا گیا ہے جب کہ توانائی
کے قابل تجدید ذرائع کو کم اہمیت دی گئی ہے. ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ پاکستانی وزارت
توانائی کی بجلی کی پیداواری صلاحیت میں اضافے سے متعلق منصوبے حقیقت سے کہیں بلند
ہیں ماہرین کا ماننا ہے کہ طویل المدت منصوبے میں کورونا وائرس اور اس کے نتیجے میں
بڑھنے والی معاشی کساد بازاری کے تناظر میں بجلی کی متوقع طلب اور پیداواری صلاحیت
میں اضافے کا تخمینہ درست نہیں ہے اس غیر حقیقی تخمینے کی وجہ سے پاکستان بجلی کی طلب
سے زائد پیداواری صلاحیت جیسے سنگین مسئلے کا شکار ہو گا اور اس طرح یہ بجلی گھر ملکی
معیشت پر بوجھ بن جائیں گے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ چین، انڈیا، بنگلہ دیش اور انڈونیشیا جیسے ممالک
جو ماضی میں اس طرح کے زائد تخمینے لگانے کے مرتکب ہوئے ہیں آج بجلی کی طلب سے زائد
پیداواری صلاحیت کے اس مسئلے سے دوچار ہیںمعاشی تجزیہ کار سائمن نکولس کی رپورٹ میں
ماہرین کا کہنا ہے کہ پیداواری صلاحیت کی مد میں ادا کیے جانے والے کپیسٹی چارجز ملک
کے بجلی کے شعبے کے لیے پہلے ہی ایک سنگین مسئلہ بنے ہوئے ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مستقبل میں طلب سے زائد بجلی کی پیداواری صلاحیت
قائم ہونے سے پاکستان کو ناقابل استعمال بجلی گھروں کو بھی کپیسٹی چارجز کی مد میں
خطیر رقم ادا کرنی پڑے گی جس کا اثر ملکی خزانے پر پڑے گا رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے
کہ 2030 میں کوئلے سے ملک میں 5.3 گیگا واٹ بجلی پیدا ہو رہی ہو گی لیکن اس کا اجتماعی
استعمال محض 14 فی صد تک رہنے کا امکان ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اس منصوبے میں قابل تجدید توانائی کو عمومی طور
پرنظر انداز کیا گیا ہے اور سال 2030 کے بعد ہوا سے بجلی پیدا کرنے والے کسی نئے منصوبے
کا اضافہ نہیں کیا گیا رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ متبادل ذرائع سے توانائی کے حصول کی
شرح 31 فی صد ہو گی جبکہ 2047 میں یہ شرح کم ہو کر 23 فی صد رہ جائے گی جس سے ظاہر
ہوتا ہے کہ پاکستان کے ارباب اختیار بجلی کے حصول کے جدید ذرائع پر انحصار نہیں کر
رہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایک جانب درآمدی ایندھن پر انحصار کم کرنا بلاشبہ
ایک قابل ستائش اقدام ہے کوئلہ او دیگر فوسل ایندھن کے استعمال میں کمی اور قابل تجدید
توانائی میں اضافے سے پاکستان میں بہتری آئے گی تاہم حکومتی پلان میں کم لاگت سے بجلی
پیدا کرنے والے ذرائع یعنی ہوا اور شمسی توانائی کے مقامی وسائل کو کہیں بھی مناسب
اہمیت نہیں دی گئی۔
توانائی پر تحقیق کا کام کرنے والے بعض ملکی ماہرین بھی اس خیال سے اتفاق
کرتے ہیں رورل ڈویلپمنٹ پالیسی انسٹی ٹیوٹ سے بطور ریسرچ اینالسٹ منسلک ہانیہ اسد کے
مطابق اس حکومتی پلان سے ملک میں بجلی کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ ہوگا اور بجلی
کی طلب سے زائد پیداواری صلاحیت اور اس کے استعمال میں کمی کی وجہ سے بجلی گھر قومی
خزانے پر بوجھ بن جائیں گے‘حکومت پاکستان کی جانب سے بجلی کی پیداوار بڑھانے کے لیے
تیار کیے گئے ”انٹی گریٹڈ پلان“میں اگلے 27 سالوں میں کوئلے سے 40 ہزار میگاواٹ تک
بجلی پیدا کرنے کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔
رواں سال سینٹر فار ریسرچ آن انرجی اینڈ کلین ایئر نے کوئلے سے بجلی
کے انحصار پر حیرانگی کا اظہار کیا تھا ماہرین کا کہنا تھا کہ دنیا میں کوئلے سے چلنے
والے بجلی گھر ختم کیے جا رہے ہیں، لیکن پاکستان میں صورتِ حال اس کے برعکس ہے. توانائی
اور صاف ہوا پر تحقیق سے منسلک اس سینٹر کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ صوبہ سندھ کے
ضلع تھرپارکر میں بڑے پیمانے پر کوئلے کی کانوں اور پاور پلانٹس لگانے کا جو منصوبہ
زیر تکمیل ہے اس کے تحت علاقے میں تین ہزار 700 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کے لیے نو پاور
پلانٹس لگائے جائیں گے۔
رپورٹ تیار کرنے والے ماہرین ماحولیات کے مطابق ان پلانٹس اور کوئلے
کی کانوں سے پیدا ہونے والی زہریلی گیسز سے ایک لاکھ کے قریب لوگوں کے متاثر ہونے کا
خدشہ ہے اسی طرح ان پلانٹس سے اگلے تیس سالوں میں 29 ہزار کے قریب فضائی آلودگی سے
ہلاکتوں کے علاوہ سانس کی بیماریوں میں اضافے کا خدشہ بھی موجود ہے. ماہرین کے مطابق
پاکستان کے جنوبی علاقوں میں متبادل توانائی کی پیدوار کے لیے انتہائی بہترین آب و
ہوا میسر ہے جسے زیر استعمال لا کر توانائی کی پیداوار میں توازن لایا جا سکتا ہے لیکن
اس میں مسئلہ یہ آتا ہے کہ شمسی اور ہوا سے حاصل ہونے والی توانائی 24 گھنٹے میسر نہیں
ہوتی اور اس کے لیے یقیناً بیک اپ ذرائع ضروری ہوتے ہیں۔
حکومت کے پلان کے مطابق بیک اپ سورس کے لیے ایل این جی پلانٹس اور تھرمل
پلانٹس کے ذریعے بجلی پیدا کی جائے گی تاہم یہ ذرائع مہنگے ہونے کے ساتھ ساتھ ماحول
دوست نہیں ہیں. پاکستان میں سستی اور صاف بجلی کی پیداوار بڑھانے کی استعداد موجود
ہے مگر ہمیں جدت اور کھلے دماغ کے ساتھ ٹیکنالوجی کا بہتر استعمال کرنا ہوگا واضح رہے
کہ حکومت پاکستان کے وزارت توانائی کے ماتحت کام کرنے والی کمپنی نیشنل ٹرانسمیشن اینڈ
ڈسپیچ کمپنی کی جانب سے تیار کیے گئے اس پلان میں اندازہ لگایا گیا تھا کہ سال
2047 تک ملک میں بجلی کی ضرورت ایک لاکھ 30 ہزار میگاواٹ سے دو لاکھ 20 ہزار میگاواٹ
تک ہوجائے گی۔
اس مقصد کے لیے ملک میں پن بجلی اور تھر میں کوئلے کے وسیع ذخائر کے
انحصار سے بجلی کی ضرورت کو پورا کیا جائے گا جبکہ 2030 تک متبادل توانائی کے مختلف
منصوبوں کے ذریعے بھی بجلی کی پیداوار میں خاطر خواہ اضافہ ہو گا. اس پلان پر ملک کے
چاروں صوبوں اور آزاد کشمیر کی حکومت نے بھی ”نیشنل پاور ریگولیٹری اتھارٹی“ کے سامنے
اپنے اعتراضات رکھے ہیں صوبوں نے اس پلان کو حد سے زیادہ پر عزم، غلط مفروضات پر مبنی
اور توانائی کے فطری اور روایتی ذرائع کو نظر انداز کرنے کے مترادف قرار دیا ہے۔
No comments